Zuhad Aur Rindi | Virtue And Vice | Baang-e-Dara: 28
Zuhad Aur Rindi
Zuhad Aur Rindi with Urdu Tashreeh
معانی: زُہد: پارسائی ۔ رِندی: شرابی، عاشق ۔ طبیعت کی تیزی: سوچ و فکر کی قدرتی قوت ۔ دکھانا: ظاہر کرنا ۔
مطلب: زہد اور رندی ایک ایسی نظم ہے جس میں ایک جانب تو علامہ اقبال نے بڑے خوبصورت اور واضح انداز میں اپنے عقائد کا ذکر کیا ہے اور دوسری جانب ان تضادات کی نشاندہی بھی کی ہے جو ملازم اور پاپائیت کے تعصبات کی پیداوار ہیں ۔ اس نظم کے عملی سطح پر دو کردار ہیں ۔ ایک مولوی اور دوسرا ایسا آزاد خیال مسلمان جو اسلام کو انتہائی وسیع المشرب مذہب تصور کرتا ہے جب کہ مولوی اسے اپنے ذاتی تعصبات کی عینک سے ہی دیکھتا ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں میں یہاں آپ کو ایک مولوی صاحب کی داستان سنانے لگا ہوں ۔ میرے اس عمل کا مقصد قطعی طور پر یہ نہیں ہے کہ محض اپنی طبع کی تیزی کا اظہار کروں بلکہ کچھ ایسے حقائق ہیں جن کا تذکرہ ناگزیر ہے
معانی: شہر: چرچا، مشہور ۔ صوفی منشی: صوفیوں کی سی زندگی بسر کرنا ۔ اعالی: جمع اعلیٰ، بڑے بڑے لوگ ۔ ادانی: جمع ادنیٰ، عام یا معلولی لوگ ۔
مطلب: جن مولوی صاحب کی داستان سنائی جا رہی ہے ان کے بارے میں یہی شہرت تھی کہ وہ تصوف کے فلسفہ سے پوری طرح آگاہ ہیں اس سبب ہر چھوٹا بڑا موصوف کا بہت احترام کرتا تھا
معانی: پنہاں : چھپی ہوئی ۔ تصوف: دنیا سے بے نیاز اور اللہ کی ذات میں فنا ہونا ۔ مضمر: چھپے ہوئے ۔ معانی: جمع معنیٰ مطلب ۔
مطلب: ان مولوی صاحب کا عقیدہ یہ تھا کہ تصوف کے فلسفے میں شریعت اس طرح پوشیدہ ہے جیسے کہ الفاظ میں معانی چھپے ہوئے ہیں
معانی: پنہاں : چھپی ہوئی ۔ تصوف: دنیا سے بے نیاز اور اللہ کی ذات میں فنا ہونا ۔ مضمر: چھپے ہوئے ۔ معانی: جمع معنیٰ مطلب ۔
مطلب: ان مولوی صاحب کا عقیدہ یہ تھا کہ تصوف کے فلسفے میں شریعت اس طرح پوشیدہ ہے جیسے کہ الفاظ میں معانی چھپے ہوئے ہیں
معانی: کرامات: جمع کرامت، ایسے کام جو عام آدمی کی طاقت سے باہر ہوں ۔
مطلب: اپنی کرامات کا خود سے بہت چرچا کرتے تھے ۔ ان کے اس رویے کا بنیادی مقصد فی الواقع اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ اپنے مریدوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے
معانی: رند: ایسا انسان جو عشق کی شراب میں مست ہو ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ یہ مولوی صاحب عرصہ دراز سے میری پڑوس میں سکونت اختیار کیے ہوئے تھے ۔ میں تو خیر رند ہی تھا لیکن زہد کے ان دعویدار سے پڑوسی ہونے کے ناطے میری پرانی واقفیت تھی
معانی: شناسا: واقف، جاننے والا ۔ قمری: کبوتر سے چھوٹا ایک خوش آواز پرندہ، فاختہ ۔ شمشاد: ایک سیدھا لمبا درخت، بلندی ۔ معانی: معنوں یعنی شاعری میں نئے نئے مضامین پیدا کرنا ۔
مطلب: ایک روز انھوں نے میری بجائے میرے ایک واقف کار سے استفسار کیا کہ یہ شخص اقبال جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بلند پایہ شاعر ہے ۔
معانی:احکامِ شریعت: شریعت کے حکم، فراءض ۔ کیسا ہے: یعنی اچھا یا بُرا ہے ۔ شعر: شاعری ۔ رشک: دوسروں کی خوبی خود میں پیدا کرنے کی خواہش ۔ کلیمِ ہمدانی: ابو طالب کلیم، فارسی کا مشہور شاعر ۔
مطلب: گو کہ اس کی شاعری ابوطالب کلیم کی طرح رشک آمیز ہے ذرا یہ تو بتاوَ احکام شرعی کا بھی پابند ہے یا نہیں
معانی: عقیدہ: اعتقاد، مذہبی خیال ۔ فلسفہ دانی: علم فلسفہ جاننا ۔
مطلب: اس کے متعلق سنا ہے کہ ہندو کو کافر نہیں سمجھتا اس نوع کا عقیدہ تو محض ایسے شخص کا ہو سکتا ہے جو صرف فلسفے پر یقین رکھتا ہو ۔
معانی: تشیع: شیعہ عقیدہ رکھنے کا عمل ۔ تفضیل: فضیلت ، دوسروں پر برتری دینا ۔ علی: حضرت علی علیہ السلام ۔
مطلب: مزید براں یہ بھی کہا جا تا ہے کہ اقبال کی فطرت میں شیعت کے عقیدے کا بھی کچھ عمل دخل ہے ۔ اس لیے کہ وہ خلفاء میں حضرت علی کو افضل تصور کرتا ہے
معانی: مقصود: غرض، مقصد ۔ مگر: شاید ۔ مذہب کی خاک اڑانا: مذہب کو رسوا کرنا، ذلیل کرنا ۔
مطلب: اس کے علاوہ را گ رنگ کو بھی عبادت کا ایک حصہ خیال کرتا ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ مذہب کا مذاق اڑاتا ہے
معانی: حُسن فروش: حسن بیچنے والی، مراد بازاری عورتیں ۔
مطلب: یہی نہیں بلکہ وہ تو طواءفیت کو بھی برا نہیں سمجھتا ۔ مگر محض اقبال سے ہی یہ شکایت نہ ہونی چاہیے اس لیے کہ ہمیشہ سے ہمارے شعراء کا یہی وطیرہ رہا ہے
معانی: سحر: صبح کے وقت ۔ رمز: بھید ۔ معانی نہ کھلنا: حقیقتِ حال سمجھ میں نہ آنا ۔
مطلب: وہ یہی تو کرتے ہیں کہ رات کو گانے سے محظوظ ہونا اور صبح دم قرآن کریم کی تلاوت کرنا! یہ صورت حال بحر حال ایک ایسا راز ہے جس کی تعبیر سے کم از کم ہم ابھی تک آگا ہ نہیں ہیں
معانی: بے داغ: برائی سے پاک ۔ مانند سحر: صبح کی طرح ۔
مطلب: اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے مریدوں سے یہ بھی سنا ہے وہ عالم شباب میں بھی بے داغ کردار کا مالک ہے ۔
معانی: مجموعہ اضداد: ایسا شخص جس میں متضاد یعنی باہم مخالف باتیں جمع ہوں ۔ دفتر حکمت: فلسفہ کی کتاب ۔ خفقانی: دل دھڑکنے کی بیماری میں مبتلا ۔
مطلب: مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقبال تضادات کا مجموعہ ہے یعنی اس کا دل تو حکمت و دانش کا خزینہ ہے جب کہ طبیعت میں قدرے جنون کے آثار دکھائی دیتے ہیں
معانی: منصور: مراد حسین بن منصور حلاج جنھیں انا الحق کہنے پر پھانسی دی گئی تھی ۔ ثانی: مراد مانند ۔
مطلب: اقبال تو رندی سے بھی آگاہ ہے اور شریعت سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہے اگر اس سے تصوف کے بارے پوچھو تو منصور حلاج کا ثانی لگتا ہے ۔
معانی: حقیقت نہ کھلنا: صحیح صورت حال معلوم نہ ہونا ۔
مطلب: مولوی صاحب استفسارات کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھ پر اس شخص کی حقیقت واضح نہیں ہوتی کیا وہ کسی نئے اسلام کا بانی تو نہیں ہے ۔
معانی: القصہ: مختصر یہ کہ ۔ تادیر: دیر تک ۔ نغز بیانی: بڑی پیاری گفتگو(طنزیہ ) ۔
مطلب: مختصر یہ کہ مولوی صاحب نے اپنے وعظ کو بہت طول دیا اور ان کی لمبی چوڑی تقریر کافی دیر تک جاری رہی ۔
معانی: بات اُڑ جانا: بات مشہور ہو جانا ۔ احبا: جمع حبیب، دوست ۔
مطلب: چونکہ اس شہر میں کوئی بات چھپی نہیں رہتی اس لیے مولوی صاحب کے ارشادات کا ہر طرف جو چرچا ہوا اس کی داستان مجھ تک بھی پہنچی ۔
معانی: سرراہ ملنا: راستے میں اچانک ملاقات ہونا ۔ حضرت زاہد: مراد وہی مولوی صاحب ۔ بات چھڑنا: باتیں شروع ہو جانا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ بعد میں ایک روز مولوی صاحب سر راہ اچانک مل گئے تو آپس میں وہی پرانی بات چھڑ گئی ۔
معانی: راہ دکھانا: صحیح راستے پر ڈالنا ۔
مطلب: وہ باتیں جو تم تک پہنچیں دراصل وہ تو محبت کے سبب کہی گئیں تھیں ۔ میرا مقصد تو تمہیں محض شریعت کی راہ سے آگاہ کرنے کے سوا اور کچھ نہ تھ
معانی: حق: فرض ۔ زرہِ قرب مکانی: قریب، ہمسائیگی میں رہنے کی وجہ سے ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں اس مرحلے پر میں نے جواباً کہا کہ پڑوسی ہونے کے ناطے آپ نے جو کچھ فرمایا وہ یقیناً آپ کا حق تھا مجھے اس پر کوئی گلہ اور شکا یت نہیں
معانی: خم ہے: جھکا ہوا ہے ۔ سر تسلیم خم ہونا: دوسروں کی مرضی پر راضی رہنا ۔ پیری: بڑھاپا ۔ تواضع: عاجزی، انکساری
مطلب: مولانا! میں تو آپ کا نیاز مند ہوں ۔ ویسے بھی آپ میرے بزرگ ہیں
معانی: قصورِ ہمہ دانی: سب کچھ جاننے کا قصور ۔
مطلب: رہا یہ مسئلہ کہ اگر آپ میری حقیقت سے آگاہ نہیں تو اس پر حیرت بھی نہیں ہوتی نا ہی اس میں کسی دانش کا دخل ہے
معانی: بحر خیالات: خیالوں کا سمندر ۔
مطلب: اس لیے کہ میں تو خود بھی اپنی حقیقت سے واقفیت نہیں رکھتا میرے خیالات میں جو گہرائی ہے اس کا علم تو مجھے بھی نہیں ۔
معانی: اشک فشانی: آنسو بہانے کی حالت ۔
مطلب: میری بھی یہی خواہش ہے کہ اقبال کو خود بھی دیکھوں ۔ میں نہیں جانتا کہ میں کیا شے ہوں ۔
معانی: اقبال سے: یعنی اپنی ذات، حقیقت سے ۔ تمسخر: مذاق ۔ واللہ: خدا کی قسم
مطلب: سچی بات تو یہ ہے کہ اقبال خود بھی اقبال کی حقیقت سے آگاہ نہیں ۔ اور اس معاملے میں کسی طرح طنز و مزاح کی گنجائش نہیں ہے
Zuhad Aur Rindi in Roman Urdu
Aik Molvi Sahib Ke Sunata Hoon Kahani
Teyzi Naheen Manzoor Tabiat Kee Dekhani
Shohra Tha Buhat Apki Sufi Manshee Ka
Kertey Thay Adub Unka Aa’ali-o-Adani
Kahtey They Kay Pinhan Hey Tasawwuf Main Shariat
Jis Terah Kay Alfaaz Main Muzmar Hon Ma,ani
Labreyz Mai-e-Zuhd Sa The Dil Ke Surahi
The Teh Main Kaheen Derd-e-Khiyaal Hama-Dani
Kerte Thay Bayan Aap Karamat Ka Apne
Manzur The Tadad Mureedun Ke Barhani
Muddat Say Raha Kertey They Humsaay Mein Maire
The Rind Say Zahid Ke Mulaqat Puraani
Hazrat Nay Maire Ek Shanasa Say Yeh Poocha
Iqbal Key Hey Qumri-e-Shamshad-e-Mani
Pabandi-e-Ahkum-e-Shariat Main Hey Keysa..
Go Shaiir Mein Hey Rushak-e-Kalim-e-Hamdaani
Sunta Hoon Kay Kafir Nahen Hindu Ko Samajhta
Hey Aeysa Aqida Asar-e-Falsaf Dani
Hey Isski Tabiyat Main Tashayu Bhe Zara Sa
Tafzeel-e-Ali (R.A.) Hum Nay Suni Is Ke Zubani
Samjha Hey Key Hey Raag ebadaat Mein Dakhil
Maqsud Hey Mazhub Ke Magr Khaak Urani
Kuchh Ar Issey Husan Faroshon Say Nahen Hey
Aadat Ye Hamary Shuara Ke Hey Purani
gana Jo Hey Shub Ko To Saher Ko Hey Tilavat
Iss Ramz Kay Ub Tak Na Khulay Ham Pay Mani
Lekin Ye Suna Apny Muridoun Say Hey Mene
Be-Daagh Hey Manind-e-Sehar Iski Javani
Majmooa-e-Azdad Hey, Iqbal Naheen Hey
Dil Dafter-e-Hikmat Hey, Tabiat Khuftani
Rindi Say Bhee Aagah, Shariat Say Bhee Waqif
Pucho Jo Tasawwuf Kee To Mansoor Ka Sani
Iss Shakhs Kee Ham Per To Haqeeqat Naheen Khulti
Ho Ga Ye Kisi Or Hee Islam Ka Baani
Al-Qissa Buhat Toul Deya Vaaz Ko Apney
Ta Deyr Rahee App Kee Ye Nagaz Bayani
Iss Shehar Main Jo Bat Ho, Urh Jaati Hey Sab Main
Men Nay Suni Apnay Ahibba Kee Zubaani
Ek Din Jo Sar-e-Rah Miley Hazrat-e-Zahir
Pher Chhir Gayi Baton Main vahi Baat Purani
Fermaya, Shekayat Voh Muhabbat Key Sabab Thee
Tha Farz Maira Rah Shariat Kee Dekhani
Mein Ne Ye Kaha Koi Gila Mujh Ko Naheen Hey
Ye Apka Haq Tha Zarah-e-Kurb-e-Makani
Kham Hey Sar-e-Taslim Maira Apke Agey
Peeri Hey Tawaza Kay Sabub Mairi Jawaani
Gar Apko Maloom Nahen Mairi Haqeqat
Peyda Nahen Kuch Is Se Qasoor-e-Hamdani
Men Khud Bhe Nahen Apni Haqeqat Ka Shanasa
Gehra Hey Maire Bahr-e-Khiyalat Ka Pani
Mujh Ko Bhe Tammanna Hey Ke ‘Iqbal’ Ko Deykhun
Ki Iss Ki Juddai Main Buhat Ashak Fishaani
Iqbal Bhe ‘Iqbal’ Say Agah Naheen Hey
Kuch is Main Tamaskhar Nahin Wallah Nahin Hey
Virtue And Vice in English
A Mullah (I tell you his tale not a bit
With any ambition of airing my wit
By ascetic deportment had won high repute,
In his praise neither gentle nor simple were mute.
God’s will, he would say, just as meaning is latent
In words, through pure doctrine alone becomes patent.
His heart a full bowl: wine of piety worked there,
Though some dregs of conceit of omniscience lurked there
He was wont to recount his own miracles, knowing
How this kept his tally of followers growing.
He had long been residing not far from my street,
So sinner and saint were accustomed to meet:
This Iqbal,’ he once asked an acquaintance of mine,
‘Is dove of the tree in the literary line,
but how do religion’s stern monishments (admonishments) seem
To agree with this man who at verse beats Kalim?
He thinks a Hindu not a heathen, I’m told,
A most casuistical notion to hold,
And some taints of the Shias’ heresy sully
His mind—I have heard him extolling their Ali
He finds room in our worship for music—which must
Be intended to level true faith with the dust
As with poets so often, no scruple of duty
Deters him from meeting the vendors‐of beauty
In the morning, devotions—at evening, the fiddle
I have never been able to fathom this riddle
Yet dawn, my disciples assure me, is not
More unsoiled than that youth is by blemish or spot
No Iqbal, but a heterogeneous creature,
His mind crammed with learning, with impulse his nature
Acquainted with vice, Aware of monishments too
In divinity, doubtless, as deep as Mansur
What the fellow is really, I cannot make out
Is it founding some brand‐new Islam he’s about
Thus the great man protracted his chatter,
and in short made a very long tale of the matter
In our town, all the world hears of every transaction
I soon got reports from my own little faction
And when I fell in with His Worship one day
In our talk the same topic came up by the way
If said he, ‘I found fault, pure good‐will was the cause
And my duty to point out religion’s strict laws
Not at all,’ I responded, ‘I make no complaint
As a neighbour of mine you need feel no constraint
In your presence I am, as my bent head declares
Metamorphosed at once from gay youth to grey hairs
And if my true nature eludes your analysis
Your claim to omniscience need fear no paralysis
For me also my nature remains still enravelled
The sea of my thoughts is too deep and untravelled
I too long to know the Iqbal of reality
And often shed tears at this wall of duality
To Iqbal of Iqbal little knowledge is given
I say this not jesting—not jesting, by Heaven
Full Book with Translation BANG-E-DRA