Bal-e-Jibril

La phir ek baar wohi | Bal-e-Jibril -008

La phir ek baar wohi

La phir ek baar wohi

La phir ek baar wohi with Urdu Tashreeh

پہلا شعر کی تشریح
معانی: بادہ و جام: شراب اور پیالہ یعنی اسلامی جذبہ و شوق ۔ میرا مقام: میری اصل حیثیت ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال خدائے عزوجل سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے پالنے والے مجھے وہی جذبہ عطا کر دے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں تھا اور جس جذبے کے تحت انھوں نے عروج حاصل کیا تھا ۔ اس جذبے کے حصول سے ہی میں وہی مرتبہ حاصل کر سکتا ہوں جو اس دور کے مسلمانوں کا تھا ۔

دوسرا شعر کی تشریح
معانی: میخانے: شراب خانے یعنی اسلامی تعلیم کے دفتر ۔ فیض: عطا ۔
مطلب: اس شعر میں بھی اقبال نے ہندوستان میں اپنے عہد کی صورت حال اور گذشتہ تین سو سال کے دوران ملت اسلامی پر جو جمود طاری رہا ہے اس کے حوالے سے وہ دعا کرتے ہیں کہ خدا کرے فیض خداوندی عام ہو اور یہ جمود ٹوٹ جائے

تیسرا شعر کی تشریح
معانی: میخانے: شراب خانے یعنی اسلامی تعلیم کے دفتر ۔ فیض: عطا ۔
مطلب: اس شعر میں بھی اقبال نے ہندوستان میں اپنے عہد کی صورت حال اور گذشتہ تین سو سال کے دوران ملت اسلامی پر جو جمود طاری رہا ہے اس کے حوالے سے وہ دعا کرتے ہیں کہ خدا کرے فیض خداوندی عام ہو اور یہ جمود ٹوٹ جائے

شعر کی تشریح چوتھا
معانی: شیر مردوں : بہادر آدمی ۔ بیشہ: جنگل ۔ تحقیق: حقیقت تلاش کرنا ۔ تہی: خالی ۔ صوفی و ملا: تصوف اور ملائیت ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ دین کو فکری سطح پر پرکھنے کی بجائے جذباتیت اور عصبیت کے حوالے کیا جا رہا ہے اس کے ذمے دار عملاً وہ لوگ ہیں جو ذہنی اور فکری سطح پر صوفی اور ملا کے پیروکار ہیں اور اپنے دینی امور میں کسی قسم کے اجتہاد کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں

پانچواں شعر کی تشریح
معانی: عشق کی تیغِ جگر دار: عشق کی مضبوط تلوار ۔ علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی: علم کے ہاتھ میں خول رہ گیا ۔
مطلب: یوں محسوس ہوتا ہے کہ بنیادی عقیدے اور جذبے سے جو عشق تھا وہ ختم ہو کر رہ گیا ہے جس کے باعث وہ علم بھی اسی طرح کی حیثیت کا حامل بن گیا ہے جیسے کہ میدان کا رزار میں کوئی تلوار نکالنا چاہے تو اسے نیام خالی ملے 

شعر کی تشریح چھٹا
معانی: روشن : چمک دار ۔ سوزِ سخن: کلام کی گرمی ۔ مرگِ دوام: ہمیشہ کی موت ۔
مطلب: انسان میں کچھ حاصل کرنے اور جذب کرنے کا شعور ہو تو بات میں وزن پیدا ہو جاتا ہے اور جب یہ شعور ہی موجود نہ ہو تو کتنی ہی اہم بات کہی جائے وہ بے معنی ہی نظر آتی ہے ۔ بالفاظ دگر انسان حقیقت شناس ہو تو حق بات اس کی زندگی کے لیے ایک نصب العین بن جاتی ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو کتنا ہی اہم قول ہو وہ بے معنی بن جاتا ہے

ساتواں شعر کی تشریح
معانی: مہتاب: چاند ۔ محروم: خالی ۔ ماہِ تمام: پورا چاند ۔
مطلب: اس شعر میں اپنے مخصوص انداز و استعاروں میں بارگاہ ایزدی میں درخواست گزار ہیں کہ میری قوم بے شک ادبار کا شکار ہے لیکن تو براہ کرم اسے اپنے بے پناہ وسائل سے محروم نہ رکھ اور اسے اپنے الطاف و کرم سے نواز دے

La phir ek baar wohi in Roman Urdu

La Phir Ek Baar Wohi Bada-o-Jaam Ae Saqi
Haath Aa Jaye Mujhe Mera Maqam Ae Saqi

Teen Sou Saal Se Hain Hind Ke Maikhane Band
Ab Munasib Hai Tera Faiz Ho Aam Ae Saqi

Meri Meenaye Ghazal Mein Thi Zara Si Baqi
Sheikh Kehta Hai K Hai Ye Bhi Haraam Ae Saqi

Sher Mardon Se Huwa Baisha-e-Tehqeeq Tehi
Reh Gye Sufi-o-Mullah Ke Ghulam Ae Saqi

Ishq Ki Taigh-e-Jigardar Ura Li Kis Ne
Ilm Ke Hath Mein Khali Hai Niyam Ae Saqi

Sina Roshan Ho Tou Hai Souz-e-Sukhan Ayn-e-Hayat
Ho Na Roshan, Tou Sukhan Marg-e-Dawam Ae Saqi

Tu Meri Raat Ko Mehtaab Se Mehroom Na Rakh
Tere Paimane Mein Hai Mah-e-Tamam Ae Saqi 

Set out once more that cup in English

Set out once more that cup, that wine, oh Saki
Let my true place at last be mine, oh Saki

Three centuries India’s wine‐shops have been closed
And now for your largesse we pine, oh Saki

My flask of poetry held the last few drop
Unlawful, says our crabb’d devine, oh Saki

Truth’s forest hides no lion‐hearts now
Men grovel before the priest, or the saint’s shrine, oh Saki

Who has borne off Love’s valiant sword?
About an empty scabbard Wisdom’s hands twine, oh Saki

Verse lights up life, while heart burns bright,
But fades for ever when those rays decline, oh Saki

Bereave not of its moon my night;
I see a full moon in your goblet shine, oh Saki

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *