Zarb-e-Kaleem

Tamheed | The Prologue | Zarb-e-Kaleem : 01

Tamheed

Tamheed

Tamheed with Urdu Tashreeh

پہلا شعر کی تشریح
معانی: تمہید: آغاز ۔ دیر: گرجا، مندر ۔ حرم: مسجد، اسلامی عبادت گاہ ۔ خاوراں : مشرقی دنیا ۔ روح کی تریاکی: وہ دوا جو مرض کے لیے بہت کارگر ہو یعنی قوم میں زندگی کے آثار ۔
مطلب:اس شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ میں نے سرزمین مشرق ساری دیکھی ہے اور مشرقی اقوام کے حالات کا مطالعہ کیا ہے ۔ یہاں نہ مندر میں ، نہ کعبے میں کہیں بھی افراد و اقوام کی خودی بیدار نہیں ہے ۔ مراد یہ ہے کہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں غیر مسلموں میں بھی خودی کی بیداری مفقود ہے ۔ علامہ کہتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کہ مشرق کی ان قوموں نے افیون کھول کر پی لی ہو یعنی ان میں آگے بڑھنے کی آرزو ختم ہو چکی ہے

دوسرا شعر کی تشریح
معانی: سہل: آسان ۔ ہنگامے: شوروغل ۔ مستی: مدہوشی ۔ اندیشہ ہائے افلاکی: آسمانی خیالات یا فکر میں کھویا رہنا ۔
مطلب: یہاں علامہ نے پتے کی بات یہ کی ہے کہ دنیا ہنگاموں کا گھر ہے جب تک آدمی دنیا کے ان ہنگاموں کو آسان نہ بنا لے اس کے افلاکی فکر و خیالات کی مدہوشی بُری ہے ۔ مراد یہ ہے دنیا میں جو ترقی یافتہ نہ ہو جائے اس کے لیے آسمانوں پر اڑنے کی فکر کی مستی کرنا بُری چیز ہے ۔ اپنے ادب و شعر اور اپنے فنون لطیفہ میں اور اپنی زندگی کے دوسرے شعبوں میں خیالی اڑان میں مست رہنا اور دنیا کے ہنگاموں پر قابو پانے کے عمل سے بیگانہ رہنا کسی قوم کے لیے بھی مفید نہیں ہے

تیسرا شعر کی تشریح
معانی: نجات: چھٹکارا ۔ مرگ: موت ۔ پیکرِ خاکی: مٹی کا جسم، یعنی فانی اور بے حقیقت ۔
مطلب: عام طور پر غلام قو میں موت کے غم میں مبتلا رہتی ہیں اور زندگی کو قربان کر کے آزادی حاصل کرنے کی قوت سے محروم ہوتی ہیں ۔ یہاں اقبال خبردار کرتے ہیں کہ اے غلام اقوام کے لوگو! یہ موت کا غم تمہیں غلامی سے اور مصائب زندگی سے نجات نہیں دلا سکتا کیونکہ خودی کوئی جسمانی پیکر کا نام نہیں ۔ یہ تو ایک اندرونی اور باطنی اور روحانی کیفیت کا نام ہے جو موت کے ساتھ بھی نہیں مرتی ۔ تیرا مرض یہی ہے کہ تو خودی کو خاکی پیکر یعنی مٹی کا بدن سمجھتا ہے

چوتھاشعر کی تشریح 
معانی: حوادث: حادثات، واقعات ۔ حجاب: پردہ ۔ قلب و نظر کی ناپاکی: دل اور نگاہ کا ناپاک ہونا ۔
مطلب: زمانے میں جو کچھ ہو رہا ہے جتنے حادثات پیش آ رہے ہیں وہ ظاہر ہیں ۔ تجھ سے محض اس لیے چھپے ہوئے ہیں کہ تیرا دل اور تیری نظر ناپاک ہے ۔ یعنی ان میں حادثات زمانہ کو دیکھنے، پرکھنے اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت نہیں ہے ۔ اے مخاطب پہلے اپنے دل کو اپنی نظر کو صاف اور پاک بنا پھر جا کر تجھے زمانہ کے سارے حادثات کی اور ان پر قابو حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی

پانچواں شعر کی تشریح
معانی: خس: گھاس کا تنکا ۔ خاشاک: کوڑا کرکٹ ۔ سرکشی: نافرمانی ۔ بے باکی: بے خوفی ۔
مطلب: خالق کائنات نے مجھے بے خوف اور بے باک شعلے عطا کر کے مجھ پر یہ ذمہ داری ڈال دی ہے کہ میں اقوام ایشیا کو جو اس وقت گھاس پھوس کی مانند ہیں ان شعلوں سے جلا کر ان میں حرارت پیدا کر دوں اور ان کی مردہ رگوں میں جان ڈال دوں

(۲)

 چھٹاشعر کی تشریح
معانی: مجلس آرائی: مجلس جمانا ۔ پیوند: کم ملنے والا ۔
مطلب: اے اقبال اگرچہ تو لوگوں میں کم میل جول رکھتا ہے لیکن یہ جو تو اپنے ہاں مجلس آراستہ کرتا ہے اور دوسروں تک اپنا پیغام پہنچاتا ہے یہ تیرا گناہ کیا کم ہے

ساتواں شعر کی تشریح
معانی: کوکنار: گوشے میں بیٹھنے والے ۔ تری نوا: آواز ۔ جذبہ ہائے بلند: اونچے درجے کے جذبے ۔
مطلب: جو لوگ پوست پی کر اونگھتے رہتے تھے اے اقبال تیری نوا نے ان بے چاروں میں بلند جذبوں کا ذوق پیدا کر دیا ۔ مراد یہ ہے کہ تیری شاعری سے سوئے ہوئے لوگ بیدار ہو گئے 
ہے

آٹھواں شعر کی تشریح
معانی: فضائے ہائے نیلگوں : آسمان کی سیر ۔ پرشکستہ: ٹوٹے ہوئے پر والا پرندہ ۔ سرا: گھر ۔ خورسند: خوش ۔
مطلب: وہ پرندے جو گھروں کے صحنوں میں خوش تھے، ٹوٹے ہوئے پروں کے باوجود اب وہ آسمان کی نیلی فضاؤں میں اڑنے کے لیے بے تاب ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ اے اقبال تیری شاعری نے ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنے والوں میں اور غلامی پر قناعت کرنے والوں میں غلامی کی زنجیریں توڑ کر ترقی کی منازل طے کرنے کا جذبہ پیدا کر دیا ہے

دسواں شعر کی تشریح
معانی: نوائے سحر: صبح کی آواز ۔ مقامِ شوق: شوق کا مقام یعنی یادِ الہٰی ۔ سرور: خوشی ۔ نظر: شناخت والی نظر ۔ محرومی: خالی رہ جانا ۔
مطلب: اے اقبال تیرے اس گناہ کی سزا جو تو اپنی نوا سے مردہ قوموں کو زندہ کر رہا ہے تیرے بدخواہ یہ دینا چاہتے ہیں کہ تجھے نوائے سحر یعنی صبح کی عاشقانہ فریاد تیرے شوق و عشق سے تجھے محروم کر دیا جائے جو تو نے پسی ہوئی قوموں کو اٹھانے اور بیدار کرنے کے لیے ان پر رکھی ہوئی ہے

Tamheed in Urdu Roman

Na Dair Mein Na Haram Mein Khudi Ki Baidari

Ke Khawaran Mein Hai Qoumon Ki Rooh Taryaki

 

Agar Na Sehal Hon Tujh Par Zameen Ke Hangame

Buri Hai Masti-e-Andaisa Haye Aflaki

 

Teri Nijat Gham-e-Marg Se Nahin Mumkin

Ke Tu Khudi Ko Samajhta Hai Paikar-e-Khaki

 

Zamana Apne Hawadas Chupa Nahin Sakta

Tera Hijab Hai Qalb-o-Nazar Ki Na-Paki

 

Atta Huwa Khs-o-Khashak-e-Asia Mujh Ko

Ke Mere Shaole Mein Hai Sarkashi-o-Bebaki!

   (2)

Tera Gunah Hai Iqbal! Majlis Arayi

Agarche Tu Hai Misal-e-Zamana Kam Pewand

 

Jo Ko Kinar Ke Khugar The, In Ghareebon Ko

Teri Nawa Ne Dia Zauq-e-Jazba Haye Buland

 

Tarap Rahe Hain Faza Haye Neelgoon Ke Liye

Woh Par Shakista Ke Sehan Sara Mein The Khorsand

 

Teri Saza Hai Nawa-e-Sehar Se Mehroomi

Maqam-e-Shauq-o-Suroor-o-Nazar Se Mehroomi

The Prologue in English

In fane and shrine the self in slumber deep is sunk

It seems that soul of East an opiate strong has drunk

 

If freaks of Fate with smile on lips you can not face

The secrets hid in firmament nʹre claim to trace

 

Your anguish sharp for Death you can not keep at bay

Because you deem that self is merely made of clay

 

Time can conceal mishaps at all from you

Alas! your heart and soul are foul and are not true

 

The straws and thorns of East (Asia) to me have been assigned

For flame that burns in me is rash and unconfined

  (2)

Iqbal you sin because the throngs you tingle

Though keep aloof and seldom with them mingle

 

Men wont to quaff extract from poppies drawn

Have courage gained for deeds requiring brawn

 

The birds who spite of pinions rent were glad

In nests for azure sky now feel so sad

 

You ought to be deprived of songs of morn

Deserve to miss delight and feel forlorn

Full Book with Translation BANG-E-DRA

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *