Ilm-o-Ishq | Knowledge and Love | Zarb-e-Kaleem-010
Ilm-o-Ishq
Ilm-o-Ishq with Urdu Tashreeh
پہلا شعر کی تشریح
معانی: دیوانہ: پاگل ۔ تخمین: اندازہ ۔ ظن: شبہ ۔
مطلب: علامہ شاعرانہ انداز میں کہتے ہیں کہ مجھ سے علم نے کہا کہ عشق اختیار نہ کرنا یہ تو سراسر دیوانگی ہے ۔ عشق نے یہ بات سن کر مجھ سے کہا کہ علم اختیار نہ کرنا کیونکہ یہ سراسر وہم و گمان ہے ۔ علم بے شک ضروری ہے لیکن حقیقت تک پہنچنے کے لیے یہ بے کار ہے
دوسرا شعر کی تشریح
معانی: کرم: کیڑا ۔ عشق سراپا حضور: یعنی عشق پوری طرح حاضر ہے ۔ علم سراپا حجاب: علم مکمل طور پر پردے میں ہے ۔
مطلب: اے اقبال تو کتاب کا کیڑا بن کر نہ رہ جانا یعنی صرف علم پڑھنے ہی میں ساری زندگی نہ گزار دینا بلکہ علم کی تکمیل کے بعد عشق کے راستہ پر بھی آنا کیونکہ وہم و گمان کی راہ پر چلنا جو علم کی راہ ہے دانش مندی نہیں ہے ۔ علم کلیتاً حجاب ہے ۔ حقیقت علم پر نہیں کھلتی ۔ اس کے برعکس عشق اختیاری تجھے حضور ذات تک پہنچا دے گی ۔ تمام پردے اٹھ جائیں گے اور حقیقت عیاں ہو جائے گی
تیسرا شعر کی تشریح
معانی: کائنات: تمام زمین و آسمان ۔ صفات: خوبیاں ۔ تماشائے ذات: ذات الہٰی کی دید ۔
مطلب: عشق مزید کہتا ہے کہ کائنات کا ہنگامہ ، کائنات کی گرمی ، کائنات میں تگ و دو اور کائنات میں عمل و سعی صرف عشق کی وجہ سے ہے ۔ علم اللہ کی صفات کو تو پہچان سکتا ہے لیکن اس کی ذات کا جلوہ نہیں دیکھ سکتا یہ صرف عشق کا کام ہے
چوتھا شعر کی تشریح
معانی: سکون و ثبات: امن اور چین ۔ حیات و ممات: زندگی اور موت ۔
مطلب: زندگی اور کائنات میں سکون اور ثبات عشق کی ہی بدولت ہے اور جینے اور مرنے کے انداز صحیح کو صرف عشق ہی بتاتا ہے ۔ موت و حیات کے راز کو علم نہیں عشق کھولتا ہے ۔ علم تو ایک ظاہری سوال کی صورت ہے جس کے پاس کوئی جواب نہیں ۔ اس ظاہری سوال کا اگر پوشیدہ جواب کسی کے پاس موجود ہے تو وہ صرف عشق ہے ۔ جس بات کو اور جس حقیقت کو علم نہیں سمجھتا عشق اس کو سمجھ بھی لیتا ہے اور پا بھی لیتا ہے ۔ اس لیے علم پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ رہو عشق اختیار کرو
پانچواں شعر کی تشریح
معانی: سلطنت: حکومت ۔ فقر: درویشی ۔ دیں : مذہب ۔ تاج و نگیں : تخت اور تاج ۔
مطلب: عشق کے اصل رخ اور اس کے مقام و اہمیت کا اندازہ کرنا ہو تو دین، فقیری اور سلطنت کے ان صحیح رخوں کو دیکھیں جو کسی مرد عشق کی بنا پر سامنے آتے ہیں ۔ یہ سب عشق ہی کے حیران کن اور بعید از عقل رخ ہیں جو عام سلطنت ، دین اور فقر سے الگ ہیں ۔ جو تاج و تخت اور مہر شاہی کے مالک ہیں یعنی بادشاہ تو عشق کے حقیر غلام ہیں ۔ اصل شہنشاہ تو عشق ہے ۔ عشق سب کچھ ہے ساری کائنات پر عشق کی حکمرانی ہے
چھٹا شعر کی تشریح
معانی: فتحِ باب: دروازے کھولنے والا ۔
مطلب: زمین ہو کہ زمانہ ہو مکان کہ اس کا مکین ہو جس کو بھی صحیح رخ پر دیکھو گے عشق ہی کہ بدولت دیکھو گے ۔ علم کی طرح عشق وہم و گمان میں مبتلا نہیں ہے بلکہ عشق سراسر یقین کا حامل ہے اور کسی بھی مشکل کی کنجی یا کسی بھی مہم کے سر کرنے کا دروازہ ہے
ساتواں شعر کی تشریح
معانی: عشرتِ منزل: سکون سے گھر رہنا، آرام کرنا ۔ حرام: ناجائز ۔ شورشِ طوفان: طوفان کا شور ۔ حلال: جائز ۔
مطلب: جس طرح دین اسلام کی شرع میں کچھ چیزیں حلال اور کچھ حرام قرار دی گئی ہیں اسی طرح شاعر کے نزدیک عشق کی بھی ایک اپنی شرع ہے ۔ اس شرع کے مطابق طوفانوں سے کھیلنا اور کشمکش زندگی میں لگے رہنا تو حلال ہے لیکن ساحل پر بیٹھ کر سیروتفریح کے مزے لینا یعنی کشمکش زندگی اور خطرات حیات سے مقابلہ نہ کرنا یہ شرع محبت میں حرام ہے
آٹھواں شعر کی تشریح
معانی: بجلی حلال: یعنی بجلی گرنا ۔ حاصل: نتیجہ یعنی پھل ۔ علم ہے ابن الکتاب: علم کتاب سے جنم لیتا ہے ۔ عشق ہے ام الکتاب: عشق سے کتاب جنم لیتی ہے ۔
مطلب: کھیت سے جو پیداوار حاصل ہوتی ہے اس کو سنبھال کر اور بچا کر رکھنا یعنی کشمکش زندگی سے جو کچھ حاصل ہو اس پر تسلی کر کے بیٹھ رہنا اور مزید تگ و دو نہ کرنا یہ شرع محبت میں حرام ہے ۔ شرع محبت میں تو یہ آیا ہے کہ اس خرمن کو جو اکٹھا کیا ہے بجلی گرا کر جلا دو تا کہ اور خرمن جمع کرنے کا خیال آئے اور تگ و دو زندگی کی ختم نہ ہو ۔ اس شرع میں حاصل کی حفاظت حرام ہے اور اس کو بجلی گرا کر جلا دینا حلال ہے کیونکہ اس کو بچانا مزید تگ و دو سے بچنے کی دلیل ہے اور عشق کو یہ ترک کشمکش پسند نہیں ۔ ہاں علم کو پسند ہو تو الگ بات ہے ۔ علم کشمکش سے گھبراتا ہے ۔ علم کو شاعر نے ابن الکتاب (کتاب کا بیٹا) کہا ہے جو پڑھتا تو سب کچھ ہے اور کرتا کچھ نہیں ۔ عشق کو اس کے برعکس شاعر نے ام الکتاب (کتاب کی ماں ) کہا ہے ۔ جملہ علوم اور ہر قسم کی کشمکش حیات کے سورج کی کرنیں یہاں سے پھوٹتی ہیں ۔ یہ وہ کتاب ہے جو جملہ علوم الہٰی کا سرچشمہ ہے ۔ اس لیے ابن الکتاب نہ بنو ام الکتاب بنو
Ilm-o-Ishq with Urdu Roman
Ilm Ne Mujh Se Kaha Ishq Hai Diwana-Pan
Ishq Ne Mujh Se Kaha Ilm Hai Takhmeen-o-Zan
Band-e-Takhmeen-o-Zan! Kirm-e-Kitabi Na Ban
Ishq Sarapa Huzoor, Ilm Sarapa Hijab!
Ishq Ki Garmi Se Hai Maarka-e-Kainat
Ilm Maqam-e-Sifat, Ishq Tamasha-e-Zaat
Ishq Sukoon-o-Sabat,Ishq Hayat-o-Mamat
Ilm Hai Paida Sawal, Ishq Hai Pinhan Jawab!
Ishq Ke Hain Maujazat Saltanat-o-Faqr-o-Deen
Ishq Ke Adna Ghulam Sahib-e-Taj-o-Nageen
Ishq Makan-o-Makeen, Ishq Zaman-o-Zameen
Ishq Sarapa Yaqeen, Aur Yaqeen Fatah-e-Bab!
Shara-e-Mohabbat Mein Hai Ishrat-e-Manzil Haraam
Shorish-e-Toofan Halal, Lazzat-e-Sahil Haraam
Ishq Pe Bijli Halal, Ishq Pe Hasil Haraam
Ilm Hai Ibn-Ul-Kitab, Ishq Umm-Ul-Kitab!
Knowledge and Love in English
Knowledge said to me, Love is madness;
Love said to me, Knowledge is calculation.
O slave of calculation, do not be a bookworm!
Love is Presence entire, Knowledge nothing but a Veil.
The universe is moved by the warmth of Love;
Knowledge deals with the Attributes, Love is a vision of the Essence.
Love is peace and permanence, Love is Life and Death,
Knowledge is the rising question, Love is the hidden answer.
Kingdom, faith and faqr are all miracles of Love,
The crowned kings and lords are base slaves of Love.
Love is the Space and the Creation, Love is Time and Earth!
Love is conviction entire, and conviction is the key!
The luxury of destination is forbidden in the religion of Love,
Fighting the storms is permitted, but the comfort of the shore is forbidden.
Lightning is permitted to Love, Harvest is forbidden.
Knowledge is the child of the Book, Love is the mother of the Book.