Tan-Ba-Taqdeer | Submission To Fate | Zarb-e-Kaleem-006
Tan-Ba-Taqdeer
Tan-Ba-Taqdeer with Urdu Tashreeh
پہلا شعر کی تشریح
معانی: تن بہ تقدیر: جسم کو تقدیر کے حوالے کر دینا اور اپنی کوشش ترک کر دینا ۔ ترکِ جہاں دنیا چھوڑ دینا ۔ مہ و پرویں : ستاروں کے نام ۔ امیر: سالار ۔
مطلب: علامہ جب یہ کہتے ہیں کہ اسی قرآن میں اب ترک جہاں کی تعلیم ہے تو اس سے یہ مراد نہ لیں کہ واقعی قرآن بدل گیا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان نے اپنی غلط تاویلوں سے قرآن سے ایسے معانی اخذ کرنے شروع کر دیے ہیں جن سے مراد دنیا کا ترک کرنا ہے ۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ قرآن تو مسلمان کو چاند اور ستاروں کی تسخیر کی تعلیم دیتا ہے ۔ لیکن آج کا مسلمان ہے کہ وہ رہبانیت اور ترک دنیا کو پسند کیے ہوئے ہے ۔ یہ سب کچھ تقدیر کا غلط مفہوم پیدا کرنے اور سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے
دوسرا شعر کی تشریح
معانی: انداز: طریقہ ۔ نہاں : پوشیدہ ۔
مطلب: کبھی یہ بات تھی کہ مسلمان جس چیز کا ارادہ کرتا تھا اس کو حاصل کر لیتا تھا وہ اپنی تقدیر آپ بناتا تھا ۔ وہ جو ارادہ کرتا تھا خدا اس کو پورا کر دیتا تھا لیکن آج وہی مسلمان تقدیر پر شاکر، بے عمل بیٹھا ہے ۔ اس کے ہر عمل میں مایوسی اور بے یقینی نظر آ رہی ہے
تیسرا شعر کی تشریح
معانی: ناخوب: برا ۔ خوب: اچھا ۔ غلامی میں : غلامی نے ہمیں ناکارہ کر دیا ۔ ضمیر: فکر سوچ ۔
مطلب: علامہ نے یہاں ایک اصول بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ جو قوم غلام ہو جاتی ہے وہ اپنے مالک کے حکم کے تابع ہوتی ہے ۔ اس طرح اس کے نزدیک اس کے مالک کی پسند اور ناپسند کے پیش نظر اچھی چیز آہستہ آہستہ بری اور بری چیز اچھی ہو جاتی ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی وہ کہتے ہیں یہی کچھ ہوا ہے ۔ غلام بن کر مسلمان قوم تقدیر پر شاکر ہو گئی ہے اور اسے صفت اور اچھائی سمجھنے لگی ہے حالانکہ آزادی میں اس کے بالکل الٹ بات تھی ۔ مسلمان اپنی تقدیر آپ بناتا تھا ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ غلامی کی زندگی میں اچھائی برائی بن گئی ہے اور ناخوب شے خوب کی صورت میں ڈھل گئی ہے
Tan-Ba-Taqdeer in urdu roman
Issi Quran Mein Hai Ab Tark-e-Jahan Ki Taleem
Jis Ne Momin Ko Banaya Meh-o-Parveen Ka Ameer
‘Tan Ba Taqdeer’ Hai Aaj Un Ke Amal Ka Andaz
Thi Nihan Jin Ke Iradon Mein Khuda Ki Taqdeer
Tha Jo ‘Na-Khoob’ Batadreej Wohi ‘Khoob’ Huwa
Ke Ghulami Mein Badal Jata Hai Qoumon Ka Zameer
Submission To Fate in English
The Quranic teaching that did bring the Moon and Pleiades within human
Is now explained in manner strange, ’Twixt man and world to cause a breach.
Their mode of work has changed entire, Before the freaks of Fate they bow
They had a say in what God decreed, But Muslims have now fallen low
What was so evil has by steps put on the shape of good and fine
In state of bondage, as is known, the shift of conscience is quite sure.