Gaisu -e- Tabdar ko aur bhi Tabdar kar | Bal-e-Jibril – 004
Gaisu -e- Tabdar ko aur bhi Tabdar kar
Bright are your tresses brighten them even more
Sir Muhammad Iqbal also know Allam Iqbal was a
Philospher, Poet and Politician in British India who is
widely regarded as having inspired the Pakistan
movement
Born : Nov 9, 1877, Sialkot
Book : Bal-e-Jibril –
Originally Published : 1935
Language : Urdu
Bal-e-Jibril is the speak of Iqbal urdu poetry.
Urdu Tashreeh
پہلا شعر کی تشریح
معانی: پریشاں : بکھر کر ۔ خاک: مٹی ۔
مطلب: اس غزل کا بنیادی موضوع عشق ہے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ موت کے بعد میری خاک کے منتشر ذرات اگر یکجا ہو کر دل کی صورت اختیار نہ کر لیں تو پھر میں اسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤں گا جو عشق کی صورت میں زندگی کے دور میں مجھ پر مسلط تھی ۔ مطلب یہ کہ زندگی میں جس عشق میں گرفتار رہا ایسا نہ ہو کہ موت کے بعد بھی اسی صورت حال سے دوچار ہو جاؤں
دوسرا شعر کی تشریح
معانی: مجبور نوا: بولنے پر مجبور ۔ فردوس: جنت ۔ حوریں : جنت کی حسینائیں ۔ سوزِ دروں : اندرونی جلن ۔
مطلب: اگر بہشت میں بھی پہنچ گیا تو وہاں موجود حوریں مجھے اظہار عشق کی اس کیفیت پر مجبور نہ کر دیں جس کے سبب میری زندگی میں فتور برپا رہا ۔
تیسرا شعر کی تشریح
معانی: مجبور نوا: بولنے پر مجبور ۔ فردوس: جنت ۔ حوریں : جنت کی حسینائیں ۔ سوزِ دروں : اندرونی جلن ۔
مطلب: اگر بہشت میں بھی پہنچ گیا تو وہاں موجود حوریں مجھے اظہار عشق کی اس کیفیت پر مجبور نہ کر دیں جس کے سبب میری زندگی میں فتور برپا رہا ۔
شعر کی تشریح چوتھا
معانی: ناپیداں کراں : جس کا کنارا نہ ہو ۔ خود نگہداری: خودداری، خود شناسی ۔
مطلب: جذبہ عشق نے مجھے ہر چند کہ ایسی وسعت عطا کر دی ہے جو ایک بیکراں سمندر کی سی ہے اب خدشہ یہ ہے کہ یہی تصور ایک ایسے ساحل کی حیثیت اختیار نہ کر دے جو میرے عمل ارتقاء کی جدوجہد میں سنگ راہ بن جائے ۔
پانچواں شعر کی تشریح
معانی: بے رنگ و بو: بے مزا ۔ طلب: ضرورت ۔ دنبالہ: پچھلا حصہ ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے لیلیٰ اور مجنوں کے معاشقے کی روایتی داستان کے حوالے سے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ میں اس عالم رنگ و بو میں بھی جنون عشق میں مبتلا ہو کر مذکورہ داستان کی تمثیل نہ بن جاؤں ۔ یعنی زندگی بھر تو محبوب کی طلب ناکامی کا مظہر رہی اور اگر بعد از مرگ دوسری دنیا میں بھی ایسا ہوا تو انتہائی کرب
شعر کی تشریح چھٹا
معانی: عروج آدم: آدمی کی بلندی ۔ انجم: ستارے ۔ ٹوٹا ہوا تارا: آسمان سے اترا ہوا آدمی ۔ مہہ کامل: پورا چاند ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے ستاروں اور مہ کامل کی علامتوں کے حوالے سے اپنے عہد میں انسان کے ارتقاء کا ذکر کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ آج ایک عام انسان کی جدوجہد کے سبب اسے جو عروج حاصل ہو رہا ہے اس نے معاشرے میں موجود اشرافیہ کو خوفزدہ کرکے رکھ دیا ہے کہ اس نے اپنی جدوجہد کے ساتھ کامیابی کی منزل تک رسائی حاصل کر لی تو ان کی اہمیت ختم ہو کر رہ جائے گی
Iqbal Roman urdu
Hosh o khirad shikar kar qalb o nazar shikar kar
Ya to khud ashkar ho ya mujhe ashkar kar
Ya mujhe ham karnar kar ya mujhe be kanar kar
Mein ho sadaf to tere haath mere gunhar ki aabru
Mein ho khazaf to tu mujh gauhar e shahvar kar
Us dam e nim soz ko tairk e bahar kar
Bagh e bashist se mujhe hukum e safar diya tha kyu
Kar e jahan daraz hai ab mira intizar kar
Ap bhi sharmsar ho mujh ko bhi sharmsar kar
Bright are your tresses brighten them even more
You lustrous tresses my dear lord further illuminate
The power of my sense heart and consciousness negate
Love too is now clandestine and beauty too is veiled
You either should reveal me or should come in open state
You are a mighty ocean i a droplet of no size
Eithe make me too immense or then assimilate
If i an oyster be my pearls dignity’s with thee
A pearl of regal luster if a grain of sand create
Turn this fleeting moment to a day of joyous spring
If melodies od spring are not ordained to be my fate
Why did you bid me leave from paradise for now
My work is ye unfinished here so you will have to wait
On the day of reckoning when you behold my slate
You will shame me and yourself you will humiliate