Agr kaj ro hain Anjum -Bal E Jibril – 02
Agr kaj ro hain Anjum
Poet : Allam Muhammad Iqbal (1877 – 1938)
Agr kaj ro hain Anjum
If the stars have strayed
Bal-E-Jibril or Gabrels Wing published in urdu 1935 was a philosophical
poetry book of allama iqbal the great south asian poet philosopher and the
Nation poet of pakistan.
Iqbal frist book of poetry in urdu, Bang e Dra 1924 was followed by Bal e Jibril 1935
and Zarb e Kalim in 1936. It consists of ghazals, poems, quatrains, epigrams and displays
the vision and intellect necessary to foster sincerity and
firm belief in the heart of the ummahand turn its members
into true believers.
Agr kaj ro hain Anjum with Urdu Tashreeh
معانی: کج رو ہیں انجم: ٹیڑھے چلنے والے ستارے ۔
مطلب: اس غزل کے اس پہلے شعر میں اقبال خداوند عزوجل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ستاروں کی چال درست نہیں تو اس کے لیے مجھے تو سزاوار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ آسمان کا مالک بھی تو ہی ہے اور اس پر جگمگاتے ہوئے ستاروں پر بھی تیرا ہی اختیار ہے ۔ بے شک تو ہی قادر مطلق ہے اور میں تو ایک عاجز و لاچار بندہ ہوں ۔ اس جہان کی فکر بھی مجھے نہیں بلکہ تجھے ہی ہونی چاہیے کہ یہ جہاں یقینا تیرا ہی پیدا کردہ ہے ۔
دوسرا شعر کی تشریح
معانی: کج رو ہیں انجم: ٹیڑھے چلنے والے ستارے ۔
مطلب: اس غزل کے اس پہلے شعر میں اقبال خداوند عزوجل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ستاروں کی چال درست نہیں تو اس کے لیے مجھے تو سزاوار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ آسمان کا مالک بھی تو ہی ہے اور اس پر جگمگاتے ہوئے ستاروں پر بھی تیرا ہی اختیار ہے ۔ بے شک تو ہی قادر مطلق ہے اور میں تو ایک عاجز و لاچار بندہ ہوں ۔ اس جہان کی فکر بھی مجھے نہیں بلکہ تجھے ہی ہونی چاہیے کہ یہ جہاں یقینا تیرا ہی پیدا کردہ ہے ۔
تیسرا شعر کی تشریح
معانی: اسے : ابلیس کو ۔ صبح ازل: پہلے دن ۔ رازداں تیرا: بھید جاننے والا ۔
مطلب: ابلیس نے جو تیرے احکام سے روگردانی کی تو اپنے مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسے انکار کی جرات کیونکر ہوئی ۔ اس لیے کہ ابلیس تو تیرے وابستگان خاص میں سے تھا اور تیرا رازدان بھی تھا ۔ اس صورت میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس ساری صورت حال کا تعلق مجھ سے تو نہیں تھا بلکہ تجھ سے اور صرف تجھ سے تھا
شعر کی تشریح چوتھا
معانی: اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خاتم الانبیاَ پیغمبر انقلاب حضور سرورکائنات احمد مصطفی ﷺ تیرے تھے ۔ تمام فرشتوں میں افضل و اعلیٰ حضرت جبرئیل جو تیری وحی انبیاَ کرام کو پہنچایا کرتے تھے ان کا تعلق بھی تجھ سے ہی تھا ۔ پھر وہ صحیفہَ کاملہ جب قرآن کی صورت میں پیغمبر آخر الزماں پر نازل ہوا وہ بھی تیرا تھا مگر وہ حرف شیریں جو وحی کی صورت میں نازل ہوا میرا تو نہیں تیرا ہی تھا
پانچواں شعر کی تشریح
معانی: کوکب: ستارہ یعنی آدمی ۔ زوالِ آدم خاکی: آدمی کا اپنے رہتے اور مقام سے گر جانا ۔ زیاں : نقصان یعنی اے اللہ اس کو تو نے ہی بنایا اور اس کے گرنے سے نقصان تیرا ہی ہوا ۔
مطلب: کائنات میں انسان کی حیثیت اس تابندہ ستارے کی طرح ہے جس سے سارا جہاں منور ہوتا ہے اور یہ روشنی تیری شناخت کا سبب بنتی ہے ۔ چنانچہ اگر یہی انسان زوال سے دوچار ہوا تو اس میں نقصان تیرا ہی ہے میرا نہیں
چھٹا شعر کی تشریح
مطلب: اقبال نے اس رباعی میں بھی گلہ مندی کا رویہ اختیار کیا ہے تاہم ابتدائی شعر میں قدرے طنز بھی ہے ۔ خداوند عزوجل سے مخاطب ہوتے ہوئے اقبال استفسار کرتے ہیں کہ قادر مطلق ہونے کے باوجود تو ضرورت مندوں کی پوری طرح کفالت کیوں نہیں کرتا
معانی: تمثیلی سطح پر اگر سمندر کسی پیاسے کی تشنگی رفع کرنے کے لیے محض ایک قطرہ آب فراہم کرتا ہے تو اس سے اس کی پیاس کیسے بجھ سکتی ہے ۔ اس عمل کو تو رزاقی کی جگہ کنجوسی سے تعبیر کیا جانا چاہیے