Ya Rab | Bal-e-Jibril – 016
Ya Rab
Ya Rab with Urdu Tashreeh
پہلا شعر کی تشریح
مطلب: بنیادی طور پر بال جبریل کی یہ تخلیق غزل نہیں بلکہ اقبال کے مخصوص اسلوب کی نظ میں اس کے ابتداءی شعر میں علامہ اس کرب میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ یہ دنیا اپنی جگہ خوبصورت اور خوشنما سہی لیکن کیا وجہ ہے کہ یہاں صاف دل اور با کمال ہنر مند موجود ہیں ان کی تذلیل کس لیے ہوتی ہے اور انہیں نچلی سطح کا فرد کیوں سمجھا جاتا ہے؟ یہ سوال اس شعر میں اقبال نے خدا کو مخاطب کر کے اٹھایا ہے
دوسرا شعر کی تشریح
مطلب: دوسرے شعر میں اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوءے اقبال کہتے ہیں کہ ہر چند اس دنیا پر سرمایہ دار طبقے کا تسلط اور اجارہ داری قاءم ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے لوگ انگریز کو بھی خداوند کی نظر سے دیکھتے ہیں
تیسرا شعر کی تشریح
مطلب: اقبال یہاں خدا سے گلہ مند ہیں کہ بظاہر تو باکمال اور اہل دانش افراد کو گھاس کی ایک پتی سے بھی نہیں نوازا جاتا جب کہ ہندوستان پر مسلط انگریز نے انتہاءی احمق اور نالاءق افراد کو انتہاءی عروج پر چڑھا رکھا ہے
شعر کی تشریح چوتھا
معانی: پاژند: ژند کی تفسیر، پارسیوں کے عقیدے کے مطابق ژندہ کتاب تھی جو ان کے پیغمبر و رہبر زرتشت پر اتری۔
مطلب: اے رب حقیقی اس میں کسی شک و شبہ کی گنجاءش نہیں کہ تیرے تمام احکام بر حق ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے مفسرین نے قرآنی آیات کو بھی بے جا تاویلات اور پیچیدہ مفاہم سے ان کے معانی اور مطالب کو بے معنی اور غیر فطری مباحث میں الجھا کر ان کی حیثیت ہی بدل دی ہے۔ بالفاظ دگر ان مفسرین نے قرآن کریم کو بھی پاژند بنا کر رکھ دیا ہے۔ عملاً اقبال قرآن کے بیشتر مفسرین سے غیر مطمءن اور ناخوش نظر آتے ہیں۔ ان کے متعدد اشعار اس کا ثبوت ہیں
پانچواں شعر کی تشریح
معانی: قریہ: گاؤں، بستی۔
مطلب: یارب تو نے اپنے فرمانبردار اور اطاعت بندوں سے بعد وفات جو بہشت عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ برحق، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بہشت کو آج تک کسی نے بھی نہیں دیکھا جب کہ افرنگیوں کا ہر قصبہ و شہر بہشت کی مانند آراستہ ہے اور جو لوگ محض ظاہری خوبصورتی کے قاءل ہیں وہ ان سے متاثر کیوں نہیں ہوں گے
چھٹاشعر کی تشریح
مطلب: میری سوچ اور فکر ایک عرصے سے انتشار کا شکار ہے۔ ان کی وسعت اور بلندیوں کو کسی نے بھی قبول نہیں کیا نا ہی ان سے استفادہ کیا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ تو اب میری خیالات کو چاند کے غاروں میں مقفل کر دے
ساتواں شعر کی تشریح
مطلب: اسی حوالے سے اقبال اپنے افکار کے بارے میں یوں گویا ہیں کہ فطرت نے مجھے وہ جوہر عطا کءے ہیں جو فرشتوں میں ہوتے ہیں حالانکہ میری تخلیق تو خاک سے ہوءی ہے اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ میرا اس خاکی دنیا سے کوءی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔
آٹھواں شعر کی تشریح
مطلب: میں تو ایسا درویش ہوں جس کا تعلق نہ مشرق سے ہے نا ہی مغرب سے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میرا وطن نہ تو دلی نہ اصفہان اور نا ہی سمرقند ہے بلکہ تیرے عشق نے مجھے ساری دنیا سے بے تعلق کر کے رکھ دیا ہے
دسواں شعر کی تشریح
مطلب: خدایا میں تو سیدھی سچی بات اور کھری بات کرنے کا عادی ہوں۔ وہی میرا قول ہوتا ہے جسے حق پر مبنی سمجھتا ہوں۔ یہی سبب ہے کہ نہ تو میں ایسا جعلساز ہوں جس نے مسجد کو اپنی پناگاہ بنا رکھا ہے نا ہی جدید تہذیب کی مکاریوں اور منفقتوں کا قاءل ہوں۔ مطلب یہ کہ نا تو ملا کی طرح سے رجعت پسند ہوں نا ہی جدید تہذیب کا حامی کار اور اندھا مقلد ہوں
گیارہواں شعر کی تشریح
مطلب: یہی سبب ہے کہ میری حق گوءی کے سبب اپنے بھی مجھ سے خفا ہیں اور بیگانے لوگ بھی ناخوش ہیں کہ میں زہر کو زہر ہی اور قند کو قند ہی کہنے کا قاءل ہوں یعنی ریاکاری اور منافقت کسی مرحلے پر بھی میرے قریب سے نہیں گزری
بارہواں شعر کی تشریح
معانی: حق بیں : حق دیکھنے والا ۔ حق اندیش: حق سوچنے والا ۔ خاشاک کے تودے: راکھ کے ڈھیر ۔ دماوند: ایک پہاڑ کا نام جو خراسان میں ہے ۔
مطلب: ایک ایسے سچے اور حقیقت پسند انسان کے لیے یہ امر ناممکنات میں سے ہے کہ وہ خس و خاشاک کے ڈھیر کو دماوند پہاڑ سے تشبیہ دے یعنی حقیقت سے روگردانی کرے اس طرح کے کھلے جھوٹ اور فریب کار میں روادار نہیں ہو سکتا
تیرہواں شعر کی تشریح
معانی: آتش نمرود: نمرود بادشاہ کی آگ ۔ دانہَ اسپند: ہرمل کا دانہ جسے آگ میں ڈالیں تو چٹختا ہے ۔
مطلب: جس طرح حضرت ابراہیم نے نمرود کی آگ میں بھی خود کو ثابت قدم رکھا تھا یہی کیفیت میری ہے کہ زمانے کی ابتلاؤں کا بھی بڑے عزم و استقلال سے مقابلہ کر رہا ہوں ۔ اس لیے کہ میں بندہَ مومن ہوں اور کالا دانہ نہیں جسے کمزور عقیدہ خواتیں ٹونے ٹوٹکے کے لیے آگ میں پھینکتی ہیں اور وہ بلاتاخیر چٹخ جاتا ہے میں تو ایسا پیکر استقامت ہوں جو ہر چھوٹی بڑی مصیبت کو برداشت کرنے کا اہل ہوتا ہوں
چودہواں شعر کی تشریح
معانی: نکو بین: نیک دیکھنے والا ۔ کم آزار: کسی کو تکلیف نہ دینے والا ۔ تہی کیسہ: خالی جیب ۔
مطلب: میرا کردار یہ ہوتا ہے کہ دل و سوز و گداز سے لبریز ہے ۔ انسان کی خوبیاں دیکھتا ہوں عیب تلاش نہیں کرتا نا ہی کسی کے لیے باعثِ آزار ہوں ۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اپنی تمام انا کے باوجود آزاد ہوں اور خود کو پابند قفس بھی محسوس کرتا ہوں اور مال و زر سے محرومی کے باوجود مطمئن اور مسرور ہوں ۔
پندرہواں شعر کی تشریح
معانی: خرم: خوش باش ۔ ذوقِ شکر خند: میٹھی ہنسی کا ذوق ۔
مطلب: کتنی ہی مشکلات و مصائب ہوں میرا دل تو ہر حال میں مطمئن و مسرور رہتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ کوئی کلی کے لبوں سے مسکراہٹ نہیں چھین سکتا کہ یہ تو ایک فطری صلاحیت کی مظہر ہے
سولہواں شعر کی تشریح
معانی: حضرتِ یزداں : مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ۔ بندہَ گستاخ: گستاخی کرنے والا شخص ۔ منہ بند: خاموش کرنا ۔
مطلب: اس آخری شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ یزداں کے حضور میں بھی میں خاموش نہ رہ سکا بلکہ بڑی بے باکی اور صاف گوئی کے ساتھ اپنی معروضات پیش کر دیں ۔ اس جسارت کو بے شک گستاخی پر محمول کیا جاۓ اور اسکے لیے جو سزا کوئی وہ بصد احترام قبول! لیکن یہ بھی تو فرز وفاداری ہے کہ محبوب کے روبرو دل کھول کر رکھ دیا جائے
Ya Rab Roman Urdu
Ya Rab ! Ye Jahan-e-Guzran Khoob Hai Lekin
Kyun Khawar Hain Mardan-e-Safa Kaish-o-Hunar Mand
Go Us Ski Khudai Mein Mahajan Ka Bhi Hai Haath
Dunya To Samajhti Hai Farangi Ko Khudawand
To Barg-e-Gya Hai Nadhi Ahle-e-Khirad Ra
Aur Kisht-e-Gul-o-Lala Babkhashand Ba Kharay Chand
Hazir Hain Kalisa Mein Kabab-o-Maay Gulgoon
Masjid Mein Dhara Kya Hai Bajaz Moaza-o-Pand
Ahkaam Tere Haq Hain Magar Apne Mufassir
Taveel Se Quran Ko Bana Sakte Hain Pazand
Firdous Jo Tera Hai, Kisi Ne Nahin Dekha
Afrang Ka Har Qariya Hai Firdous Ki Manand
Muddat Se Hai Awara’ay Aflaak Mera Fikar
Kar De Isse Ab Chand Ki Gharon Mein Nazarband
Fitrat Ne Mujhe Bakhse Hain Johar-e-Malkooti
Khaki Hun Magar Khaak Se Rakhta Nahin Paewand
Darvesh-e-Khuda Mast Na Sharqi Hai Na Gharbi
Ghar Mera Na Dilli, Na Safahan, Na Samarqand
Kehta Hun Wohi Baat Samajhta Hun Jise Haq
Ne Abla-e-Masjid Hun, Na Tehzeeb Ka Farzand
Apne Bhi Khafa Mujh Se Hain, Begane Bhi Na-Khush
Main Zehar-e-Halahil Ko Kabhi Keh Na Saka Qand
Hun Atish-e-Namrood Ke Shaolon Mein Bhi Khamosh
Main Band’ay Momin Hun, Nahin Dana’ay Aspand
Pursoz-o-Nazarbaz-o-Nikobeen-o-Kam Azar
Azad-o-Giraftar-o-Tehi Keesa-o-Khorsand
Har Haal Mein Mera Dil-e-Be Qaid Hai Khurram
Kya Cheenay Ga Gunche Se Koi Zauq-e-Shakar Khand
Chup Reh Na Saka Hazrat-e-Yazdan Mein Bhi Iqbal
Karta Koi Iss Banda’ay Gustakh Ka Munh Band
Lovely, oh Lord in English
Lovely, oh Lord, this fleeting world but
Why must the frank heart, the quick brain droop and sigh?
Though usury mingle somewhat with his god ship
The white man is the world’s arch‐deity
One wisp of hay to genius you deny
His asses graze in fields of rose and poppy
His Church abounds with roasts and ruby wines
Sermons and saws are all your mosques supply
Your laws are just but their expositors
Bedevil the Koran twist it awry
Your paradise no‐one has seen
In Europe no village but with paradise can view
Long, long have my thoughts wandered about heaven
Now in the moons blind caverns let them sty
I dowered by Nature with empyrean essence
Am dust—but not through dust does my way lie
Nor East, nor west my home
Nor Samarkand nor Isfahan nor Delhi in ecstasy
God‐filled I roam, speaking what truth I see
No fool for priests, nor yet of this ages fry
How could a weigher of truth (True Believer)
See Mount Damawand and think a common refuse‐heap as high?
In Nimrod’s fire faith’s silent witness,
Not like mustard‐seed in the grate burned sputtering – I am a True Momin – God’s Man
Blood warm gaze keen right‐following wrong‐forswearing
In fetters free prosperous in penury
In fair of foul untamed and light of heart
Who can steal laughter from a flower’s bright eye?
Will no one hush this too proud thing Iqbal
Whose tongue God’s presence‐chamber could not tie