Bang-e-Dra

Dard-e-Ishq || Poetry of Allama Iqbal || Bang-e-Dra 21

Dard-e-Ishq

Dard-e-Ishq
Dard-e-Ishq

معانی: گہرِ آب دار: چمکدار موتی ۔ نامحرم: ناواقف، غیر، بیگانہ ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال عشق کے جذبے میں جو کسک ہوتی ہے اس سے مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تو ایک انتہائی چمکدارموتی کی مانند ہے لہذا تجھ پر لازم ہے کہ جو اس جذبے سے آگاہی نہیں رکھتے ان کے روبرو اپنے وجود کو آشکار نہ کرے
معانی: پنہاں : چھپا ہوا ۔ تہِ نقاب: پردے کے نیچے ۔ جلوہ گاہ: ظاہر ہونے کی جگہ ۔ ظاہر پرست: مراد ظاہر کی دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے والی ۔
مطلب: تیری کیفیت تو اس حسین چہرے کی سی ہے جو نقاب میں چھپا ہونے کے باوجود بھی اپنی تابندگی مظہر ہوتا ہے ۔ میں تجھے اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ عہد نو کے لوگ محض ظاہری چیزوں کو ہی اہمیت دیتے ہیں اور باطن تک ان کی نظر نہیں پہنچتی ۔

معانی: نئی ہوا: مراد نئے طریقے، خیالات، مراد مادہ پرستی ۔ چمنِ ہست و بود: مراد یہ دنیا ۔ نمود: ظاہر ہونے کی حالت ۔
مطلب: اے دردِ عشق! اس کائنات میں تو ایسی ہوا چل پڑی ہے کہ باشعور لوگ اب اپنے روبرو ظاہر اشیا سے لطف نہیں اٹھا سکتے 

معانی: خود نمائیوں : جمع خود نمائی، خود کو ظاہر کرنے کی حالتیں ۔
مطلب: چنانچہ تیرے لیے لازم ہے کہ اپنے وجود کو ظاہر کرنے کی جستجو نہ کرے یوں بھی تیرے لیے کیا ضروری ہے کہ خود کو نالہ بلبل کی احسان مندی قبول کرے کہ اس طرح تو تیری ہیَت ظاہر ہونے کا امکان ہے 

معانی: گریہ: رونا ۔
مطلب: اے درد عشق! موجودہ صورت حال میں تو ایسی کیفیت ہونی چاہیے کہ لالے کے پھول کے حوالے سے بھی جذبہ محبت کے اظہار کا امکان نہ ہو ۔ اور انسان پانی کی بوندوں کو بھی شبنم کے قطرے تصور کرے

معانی: درونِ سینہ: دل میں ۔ اشک جگر گداز: ایسے پرسوز آنسو جو جگر کو پگھلا دیں ۔ غماز: چغلی کھانے والا ۔
مطلب: تیرا راز بدستور سینے کے کسی گوشے میں پوشیدہ رہنا ضروری ہے نا ہی تجھ سے منسوب آہ بھی سنائی دے جو سننے والے کے جگر کو تڑپا کر اور گداز کر کے رکھ دیتی ہے

معانی: رنگیں بیاں : دل کش اشعار کہنے والا ۔ نَے: بانسری ۔
مطلب: بلکل اسی طرح سے جیسے کہ شاعر رنگیں نوا اپنے نغموں کا سلسلہ منقطع کر دیتا ہے یا کوئی بانسری بجانے والا اپنے سروں میں جدائی کی کیفیت کا اظہار کرنے سے گریز کرتا ہے
معانی: نکتہ چیں : عیب نکالنے والا، اعتراض کرنے والا ۔ مکیں : ٹھکانا کیے ہوئے ۔
مطلب: اے درد عشق! تجھ پر بھی یہ لازم ہے کہ اس عہد نکتہ چیں سے خود کو کہیں روپوش کرے ۔ تیرے لیے مناسب یہی ہے کہ جو دل تیری آماجگاہ ہے وہیں مستقل طور پر اپنا مسکن بنا لے ۔ مراد یہ ہے کہ جذبہ عشق کی کسک اظہار کے ساتھ ہی اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہے ۔ لہذا اس باطن تک ہی محدود کرنا لازم ہے ۔
معانی: حیرتِ علم آفریدہ: علم کی پیدا کردہ حیرانی ۔ جویا: تلاش کرنےوالی ۔ نگہِ نارسیدہ: ایسی نگاہ جو اپنے مقصود تک نہ پہنچے، ناتجربہ کار نگاہ ۔
مطلب: حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اے درد عشق! تیرے وجود سے اہل علم و دانش آگاہ نہیں اور تیری کسک کا بھی انہیں ادراک نہیں ۔

معانی: خیالِ بلند: مراد فلسفی کی بلند سوچیں ۔ دیدہَ حکمت پسند: فلسفے کو پسند کرنے والی نگاہ ۔
مطلب: لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے تو ان اہل علم و دانش کو اسی طرح سے حیرت زدہ ہی رہنے دے اور جو لوگ خود کو حکمت و آگہی کا مظہر سمجھتے ہیں انہیں بدستور عدم واقفیت کا شکار ہی رہنے دے
مطلب: یہ ماحول ایسا نہیں ہے جو تیرے سبب بہار آفریں بن سکے ۔ اس لیے کہ یہ تو ایسی نہیں جگہ ہے جہاں تیری نمود کی گنجائش ہو ۔ مراد یہ ہے کہ اس عالم رنگ و بو کے لوگ عملی طور پر بے حس ہو چکے ہیں اور لطیف جذبوں سے محروم ہیں

معانی: کُشتہَ نظارہ مجاز: مراد ظاہری حسن پر مرنے والا ۔ خلوت سرائے راز: مرا د کائنات کی حقیقت کی تنہائی کی جگہ یعنی منزل ۔
مطلب: یہ پورا ماحول باطنی اسرار کی آگہی سے قطعی طور پر ناشنا ہے جب کہ تیر ا ادراک تو وہی کر سکتا ہے جو باطن میں جھانکنے کی صفت کا حامل ہو

معانی: مئے خیال: تصور اور سوچ کی شراب مراد عشق سے خالی ۔ چُور: ڈوبا ہوا ہے ۔ آج کل کے کلیم: موجود دور کے فلسفی جو جذبہ عشق سے خالی ہیں ۔
مطلب: آج کل کے لوگوں کی کیفیت تو بس ایسی ہے کہ وہ اپنے اپنے خیالات میں گم رہنے والے ہیں اس طرح عصر موجود کے باسیوں کے طور طریقے ہی ماضی کی نسبت بڑی حد تک تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں

Dard-e-Ishq

Ay dard e ishq hai gohar e aabdar Tu
Na mehramon main dekh na ho ashkar Tu

Pinhaan tah-e naqaab teri jalwa gaah hai
Zahir parast mehfil-e nau ki nigaah hai

Ae nai hawa chaman e hast o bood mein
Ay dard e ishq ab nahi lazzat namood main

Haan khud numaayion ki tujhay justaju na ho
Minnat pazeer naala’e bulbul ka tu na ho

Khaali sharaab ishq se laalay ka jam ho
Pani ki boond giriya e shabnam ka naam ho

Pinhaan daroon e seena kahin raaz ho tera
Ashk e jigar gudaaz na ghammaz ho tera

Ye daor nukta cheen hain kahin chhup ke beth reh
Jis dil main tu makeen hai wahi chup ke beth reh

Ghaafi hai tujh se herat e ilm afareed dekh
Joeya nahi teri nigah e na raseeda dekh

Rehne de justaju mein khayal e buland ko
Herat mein chor deeda e hikmat pasand ko

Ye anjuman hai kushta e nazaara e majaaz
Maqsad teri nigaah ka khilwat saraa e raaz

Har dil may e khayaal ki masti se choor hai
Kuch aur aj kal ke kaleemon ka torr ha

Poet : Allam iqbal

Pathos of Love

in English

O pathos of love you are a glossy pearl

Beware you should not appear among strangers

The theatre of your display is concealed under the veil

The modern audience eye accepts only the visible display

New breeze has arrived in the existence garden

O Pathos of Love now there is no pleasure in display

Beware you should not be striving for ostentation

You should not be obligated to the nightingale lament

The tulips wine cup should be devoid of wine

The dews tear should be a mere drop of water

Your secret should be hidden in the bosom somewhere

Your heart melting tear should not be your betrayer

The flowery styled poets tongue should not be talking

Separations complaint should not be concealed in flutes music

This age is a critic go somewhere conceal  yourself

In the heart in which you are residing conceal yourself

The learnings surprise is neglecting you beware

Your immature eye is not the  seeker of truth beware

Let the elegant thought remain in the search of truth

Let your wisdom loving eye remain in astonishment

This is not the garden whose spring you may be

This is not the audience worthy of your appearance

This audience is the lover of the material sights

The purpose of your sight is the closet of secrecy

Every heart is intoxicated with the wine of thinking

Something different is the tur of the Kalims of this age

Full Book with Translation BANG-E-DRA

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *